شايد کے سمجھ میں آ جائے میری بات ​

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شاید کے سمجھ میں آ جائے میری بات ث۔ک 16

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ 

﴿26

پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھر ے نہیں کہ ان کے لیے ایسے دل ہوں جن کے ساتھ وہ سمجھیں، یا کان ہوں جن کے ساتھ وہ سنیں۔ پس بے شک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

ہم بحیثیت انسان اشرف المخلوقات ہیں اللہ تعالیٰ نے بہترین شکل و صورت دیا سوچنے سمجھنے کا مادہ دیا پھر کیوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے پاس سمجھنے کے لئے دل ہوتا اور سننے کے لئے کان ہوتا تو کیا جس کے آنکھ نہیں ہے وہ کیا کچھ نہیں کر سکتے اور کان نہیں تو سن نہیں سکتے حالانکہ نابینا مکمل قرآن وحدیث کے حافظ ہیں پوری علمی ذخیرہ ہے ان کے پاس پھر کیوں اللہ نے فرمایا

 تو قصہ یاد آیا ایک اندھا بوڑھا شخص ایک گاؤں میں رہتے تھے پورے دن سوتے اور شام ہوتے ہی لالٹین جلا کر سڑک پر نکل جاتے تو اکثر جس سڑک پر آمد و رفت زیادہ ہوتی لوگ اس لالٹین کی روشنی سے فایدہ اٹھاتے اور اس روشنی میں چلتے اور کہیں کہیں پر رک کر آواز دیتے بھائیو راستہ دیکھ کر چلنا میں اندھا ہوں بوڑھا ہوں کہیں مجھ سے ٹکرا نہ جانا اور لوگ ہنس کر چکے جاتے کہ یہ بوڑھا مذاق کر رہے ہیں ایک دن ایک گاؤں سے گزر رہے تھے کچھ آواز سنے تو رک کر بولے بھائیوں راستہ دیکھ کر چلنا مجھ سے ٹکرا نہ جانا میں بوڑھا ہوں اندھا ہوں لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے بابا جب آپ اندھے ہیں تو لالٹین کیوں جلاکر گھوم رہے ہیں تو اس بوڑھے نے کہا کہ بیٹا یہ لالٹین تم لوگوں کے لئے لیکر گھوم رہا ہوں تاکہ تم آنکھ والا مجھ سے ٹکرا نہ جائے میں تو اندھا ہوں مجھ پر کوئی نہیں ہنسے گا لیکن تم آنکھ والے اگر گر گئے تو دنیا ہنسے گی ۔

محترم بھائیو اس قصے سے پتہ چلتا کہ آنکھ کے اندھے اندھے نہیں بلکہ دل کا اندھا حقیقی اندھا ہے اور کان کے بہرے نہیں دل کے بہرے ہیں ایک شخص بہرا ہے لیکن آپ کے ہونٹوں کی حرکت سے سمجھ جاتا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو اے عقل کے اندھوں اگر کوئی جشن بخآری کراتے ہیں جلسہ جلوس کرتے ہیں دینی پروگرام کرتے ہیں تو اس وقت یہی کیوں نظر آتی ہے کہ مرد و عورت کا اختلاط ہوگیا اس کا خیال نہیں رکھا اس وقت دل کے اندھے کیوں بن جاتے ہیں کوئی دینی پروگرام میں بری نیت سے نہیں جاتا تو تم کو مکھی کی طرح گندگی ہی کیوں نظر آتی ہے اور جتنا شور یا جتنی ہنگامہ آرائ اس مجلس سے نہیں ہوتی ہے یا لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوپاتا ہے کہ منتظمین نے ہمیں کہاں بیٹھا رکھا ہے ارے عقل کے اندھوں اسی بخآری کی پہلی حدیث ہی یہی  ہے

 إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ پھر عقل کیوں مر جاتی ہے اس مجلس منعقد کرنے والے کی نیت خراب نہیں بد نیت وہ ہے جو زندگی بھر سوائے نقطہ چینی کے الزام تراشیاں کے شوشہ بازی کے غیبت چغل خوری کے عیاری و مکاری کے کچھ نہیں کرتے اسی سب خوبیوں نے آج مسلم سماج کو اتنا نیچے گرا دیا کہ اللہ کی پناہ تنقید اصلاح کے لئے کرو کرکے دکھاؤ کیا دوحہ قطر کا فیفا ورلڈ کپ یاد ہے پوری دنیا نے الزام لگایا کہ ایسا ہے ویسا ہے قوم لوطیوں کو اس کی علامات کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دے گا شراب نہیں پینے دیگا مجبور ہو کر قطر کے وزیر نے علی اعلان کہا کہ ہم چند دن کے خاطر اپنا ایمان کو نہیں چھوڑ سکتے اور دنیا نے دیکھا کہ افتتاحی تقریب کا افتتاح جس نے کیا دنیا حیران رہ گئی حکومت کی حکیمانہ اور تدبرانہ حکمت عملی نے اپنا کام کر گیا جو شراب کی بوتل کے لئے جھگر رہے تھے جاتے وقت ایمان ساتھ لیکر گئے سیکڑوں نے اسلام قبول کیا اور پوری دنیا والوں کو ماننا پڑا کہ اتنا پُرسکون ماحول میں کہیں ورلڈ کپ نہیں  ہوا اور اختتام کو پہونچا انہوں نے بولنے والے کی زبان پر کام دیکھا کر تالا لگا دیا ۔

بھائیوں ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں کی عورتیں مردوں کے ساتھ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی ہیں اپنے ساری سلوار کو گھٹنوں تک اٹھا کر چلتی ہیں کون عالم کی بیوی کون جاہل کی بیوی اس وقت کوئی فرق نہیں دکھتا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فاحشہ بدکار بری کردار والی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے آپ جیسے کسی مولوی نے گھر پر جاکر چار عورتوں کو اکٹھا کرکے یہ سمجھایا ہی نہیں کہ اس طرح کپڑے اوپر کرکے گنہگار ہونگی کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنا عیب نہیں ہے مگر پردہ کا خیال رکھیں واللہ وہ دل وجان سے قبول کرےگی دعائیں دینگی لیکن شوشل میڈیا پر دیکھا کر کہینگے تو وہ آپ کو جوتا مارے گی پروگرام کرنے والے کو نہیں اس سے یہ مراد نہیں میں پردے کا مخالف ہوں میں یہ کہتا ہوں کہ اچھائی برائی ہر جگہ ہے آپ جگہ موقع محل دیکھ کر مناسب انداز میں بات رکھیں مجلسیں منعقد کرکے دکھائیں ورنہ کوے کی طرح ٹائیں ٹائیں نہ کریں ورنہ جو بھی ماں بہن اور نوجوان بوڑھے اس پروگرام میں شرکت کرتے ہیں کل کو وہ بھی نہیں پہونچ پائینگے اس لیے امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ نے إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ

یہ باب باندھ کر شروع کیا اور آخر میں

 من قال حين يصبح وحين يمسي: سبحان الله وبحمده مائة مرة غفرت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر ۔ لاکر ختم کردیا

اس لئے جشن بخآری کرنے والے کرانے والے اور سننے والے سنانے والے اور آپ تنقید کرنے والے صبح شام اس دعا کو پڑھیں اور اللہ پر توکل کریں ان شاءاللہ اللہ تبارک وتعالی غفور الرحیم ہے معاف کردے گا شرط ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم کرکے اس رب سے اس دعا کے ذریعے معافی طلب کریں ۔

اے اللہ تو رحیم و کریم ہے تو غفور ہے تجھی سے اپنی گناہوں کی معافی چاہتے ہیں تو بخش دے مولی

نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست

ہمیں آئینہ دیکھانا ہے دیکھاتے رہینگے

یہ کسی کی موافقت یا مخالفت میں نہیں لکھا میں نے عام بات جو ہو رہا ہے اس پر لکھا ہوں اس کو کوئی اپنے اوپر نہ لیں

ثناءاللہ کریمی دوحہ قطر ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top